عزیز دوستوں!۔
غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز دینا شرک ہے
وَ مَاَ اَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَۃ اَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اﷲَ یَعْلَمُہ۔
یہ آیت کریمہ نذر پوری کرنے کے وجوب پر دلالت کناں ہے کیونکہ نذر کا پورا کرنا عبادت کے قبیل سے ہے اور اس کے ساتھ اس بات کی بھی تصریح موجود ہے کہ غیر اللہ کی نذر ماننا شرک ہے اور یہ کہ جو شخص خالصۃً اللہ تعالیٰ کے لئے نذر مانتا ہے اور اسے پورا بھی کرتا ہے، وہ لائق تعریف ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد یہ امر واضح ہو گیا کہ وہ نذریں جو عبادِ قبور، اہل قبور سے تقرب حاصل کرنے کی غرض سے مانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اصحاب ُ القبور اِن کی حاجات پوری کریں اور ان کے سفارشی بنیں، تو یہ سب بلارَیب و شک شرک فی العبادت ہے۔
جو شخص قبر وغیرہ کے لئے تیل کی نذر مانے تاکہ قبروں پر دیئے جلائے اور جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا عقیدہ ہے، یہ عقیدہ رکھے کہ نذر قبول کی جاتی ہے ایسی نذر مسلمانوں کے نزدیک بالاتفاق معصیت ہے اور اسے پورا کرنا ناجائز ہے۔ یہی صور ت حال اس مال کی ہوگی جو صاحب قبر یا مجاورین کو خوش کرنے کے لئے بطورِ نذر مانا گیا ہو، کیونکہ یہ مجاورین ان لوگوں سے ملتے جلتے ہیں جو کہ لات، عُزّٰی اور مناۃ کے مجاور تھے۔ وہ بھی ناحق، لوگوں کا مال کھاتے تھے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے۔ آج کے مجاوروں کا بھی یہی حال ہے یہ بھی عوام الناس کا مال بے دریغ کھاتے ہیں اور سب سے بڑا ظلم یہ ہورہا ہے کہ یہ لوگ صراطِ مستقیم سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں
قبروں کے ان محافظوں اور مجاوروں کو نذر پیش کرنے کی حیثیت عیسائیوں کی صلیب کے محافظوں اور پہرے داروں کی سی ہے، یا پھر ہندوستان میں بُدھ کے مجسموں کے ان پجاریوں کی ہے جو اپنے بتوں کی حفاظت کی خاطر یہاں دھرنا دے کر بیٹھے رہتے ہیں۔
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جو نذر صر ف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے مانی گئی ہو، جیسے یہ کہے کہ اگر میرے مریض کو اللہ تعالیٰ نے صحت عطا فرمائی تو میں اتنا مال صدقہ کروں گا، تو ایسی نذر کو پورا کرنا واجب ہے۔ اگر اس نے کسی چیز کے حصول پر ایفائے نذر کو معلق رکھا تو اس کے حاصل ہونے کے بعد نذر پوری کرے۔ واللہ اعلم بالثواب۔