لفظ مولانا،سیدنا اور حضرت کا استعمال

حدثنا محمد حدثنا عبد الرزاق اخبرنا معمر عن همام بن منبه انه سمع ابا هريرةرضي الله عنه يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:‏‏‏‏ " لا يقل احدكم اطعم ربك وضئ ربك اسق ربك وليقل سيدي مولاي ولا يقل احدكم عبدي امتي وليقل فتاي وفتاتي وغلامي ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی شخص (کسی غلام یا کسی بھی شخص سے)یہ نہ کہے۔ اپنے رب کو کھانا کھلا، اپنے رب کو وضو کرا، اپنے رب کو پانی پلا“۔ بلکہ صرف میرے سردار، میرے آقا کے الفاظ کہنا چاہئے۔ اسی طرح کوئی شخص یہ نہ کہے۔ ”میرا بندہ، میری بندی، بلکہ یوں کہنا چاہئے میرا چھوکرا، میری چھوکری، میرا غلام۔“
صحیح بخاری،كتاب العتق،حدیث نمبر: 2552

اس حدیث میں سیدی اور مولای کا استعمال ہوا ہے
سیدی مطلب میرے سردار اور مولای مطلب میرے آقا اور سیدنا کا مطلب ہمارے سردار اور مولانا کا مطلب ہمارے آقا ہے

اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی کےلئے ’’ مولانا ‘‘ استعمال کیا ہے ؛
دیکھئے صحیح البخاری حدیث :2699

فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ:‏‏‏‏ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ، وَقَالَ لِعَلِيٍّ:‏‏‏‏ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ:‏‏‏‏ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي، وَقَالَ لِزَيْدٍ:‏‏‏‏ أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے، پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔

اور لفظ حضرت کا اطلاق ایسے بڑے آدمی پر ہوتا ہے جس کے پاس لوگ جمع ہوتے ہیں، جیسے الحضرۃ العالية تامر بكذا۔ کہ جناب عالی فلاں فلاں کام کا حکم دیتےہیں۔ ان دونوں لغوی حوالہ جات سے متبادرالی الذہن مفہوم یہ ہے کہ حضرت عالی اور جناب عالی مترادف المعنی ہیں ، لہذا ادب و احترام کے اظہار کے لیے اس کا استعمال روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ لہذا اس اعتبار سے اس کے استعمال میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس کا معنی حاضر ناظر کا لیا جائے یا اس اعتقادی معنی کا استدلال کیا جائے جیسا کہ قبوریین کا عقیدہ ہے تو پھر ہرگز جائز نہیں