
جب تک مسلمان دینِ اسلام کی اصل قرآن و حدیث پر رہے متحد اور مجتمع رہے جیسے ہی لوگوں کے فہم و فلسفہ کو اپنایا تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے اور دینِ محمدیﷺ میں اپنی من مانی جب بھی کی جائے گی اس اُمت میں انتشار کا ہی باعث بنے گی، اللہ اور نبیﷺ نے ہمیں قرآن و سنت کو تھامنے اور ان پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور یہی دین ہے اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہوگا وہ کسی کا فہم و فلسفہ تو ہوسکتا ہے پر دین نہیں۔
ایک لمبے عرصہ تک ہم لوگ ہندؤوں کے ساتھ رہےہیں جس کی وجہ سے ہندؤوں کے مذہب کی کافی باتیں اور رسم و رواج کو اسلام سمجھ چکے ہیں اور ان پر بہت سختی کے ساتھ کاربند بھی ہیں اور جو ایسے رسم و رواج کے خلاف بات کرئے اس پر فتوے لگ جاتے ہیں جہاں اور بھی بہت سی جاہلانہ رسمیں ہیں ان میں ایک رسم ہے درگاہوں، درباروں آستانوں پر میلوں کا انقاد، ہمارے مولوی لوگ اس کو اسلام کا نام دیتے ہیں مگر جب ان سے کہا جاے کہ مولوی صاحب یہ کہاں کا اسلام ہے کہ جہاں گانے باجے بجتے ہوں، کھسرے تو کھسرے عورتیں اور مرد بھی ڈانس کرتے ہوں؟ جہاں اذان و اقامت اور نماز کے اوقات میں بھی گانے، قوالیاں بجتی رہتی ہیں؟
تو کہتے ہیں کہ یہ لوگ جو ایسا کرتے ہیں غلط کرتے ہیں ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف کام ہیں میلہ کا مقصد یہ نہیں ہے جو یہ لوگ کام کرتے ہیں، پھر ان سے کہا کہ آپ جو عالم دین ہیں آپ لوگ ان جاہلوں کو سمجھاتے کیوں نہیں ہیں کہ یہ کام اسلام کے خلاف ہیں؟ تو کہتے ہیں کہ بھائی ہم تو سمجھاتے ہیں مگر یہ لوگ مانتے ہی نہیں ہیں، حالانکہ یہی مولوی صاحب اپنے خطبوں میں عرسوں اور میلہ کی فصیلت بیان کر رہے ہوتے ہیں، ایک لفظ بھی ایسا نہیں بولتےجس سے لوگ اس جہلانہ اور کافرانہ رسم کو کرنے سے باز آ جائیں۔
پاکستان میں ہی صرف دیکھا جائے تو سال کے جتنے دن ہیں ان سے زیادہ پاکستان میں میلے لگتے ہیں یعنی ہر روز کہیں نا کہیں میلہ ضرور لگا ہوتا ہے مگر اس سب کے باوجود کوئی بھی مولوی صاحب اس غلط اور باطل رسم کے خلاف نہیں بولتا ،الا ماشاءاللہ، کیونکہ اس طرح کرنے سے ان کی روزی روٹی بند ہوتی ہے جو ہزاروں لاکھوں وہاں پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں وہ ہاتھ سے جاتے رہیں گے اور اس کے علاوہ لوگ ایک خطاب بھی دیں گے جو خطاب شاید ان کو موت سے بھی برُا لگتا ہے اور وہ ہے وہابی کا خطاب کیونکہ جو بھی اللہ اور رسولﷺ کے احکامات بتائے اور لوگوں کو غلط برُی رسموں و رواج سے روکے اس کو ہمارا معاشرہ وہابی کے لقب سے یاد کرتا ہے اور جو ہر طرح کی بدعات، ہر طرح کی رسومات، ہر طرح کی جہالت کا عَلم بلند کرئے وہ عاشقِ رسول ﷺ کا لقب پاتا ہے۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ میلہ وغیرہ کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟
سنن ابودائود:جلد۲:حدیث نمبر۲۰۲۴
اس میں نبیﷺ کا واضح ارشاد مبارک ہے کہ میری قبر کو میلہ گاہ یعنی جمع ہونے والی جگہ نہ بنانا، اگر ایسا عمل نبیوں کے امام محمدﷺ کی قبر مبارک پر منع فرما دیا گیا ہے تو کسی غیر نبی کی قبر پر تو کسی قیمت پر جائز نہیں ہوسکتا ہے مگر ہمارے ہاں بہت سے لوگ اس ممنوع عمل کو بڑی باقاعدگی سے بجالاتے ہیں اور نام بھی اس کو اسلام کا دیتے ہیں مگر وہ اس پر کوئی ایک بھی قرآن و صحیح حدیث سے دلیل نہیں دے سکتے ہیں، میلہ کے متعلق ایک اور حدیث بھی ہے کہ
سنن ابودائود:جلد۲:موضوع کتاب:قسم کھانے اور نذر (منت ) ماننے کا بیان: اس کا بیان کہ نذر کا پورا کرنا ضروری ہے
اس حدیث شریف سے واضح ہوا کہ یہ میلہ لگانا کفار اور مشرکین کا عمل ہے اور دوسرا ایک اور بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی ایسی جگہ جہاں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہو وہاں اللہ کی عبادت کرنا بھی منع ہے کیونکہ نبیﷺ نے اس حدشے کو واضح ارشاد فرما کر پوچھا کہ کبھی وہاں کسی بت کی پوجا پاٹ تو نہیں ہوتی تھی؟جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب نفی میں دیا تو آپﷺ نے نذر پوری کرنے کی اجازت مرہمت فرمائی اور اگر جواب اثبات میں ملتا تو یقیناً آپﷺ نے نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دینی تھی کیونکہ کوئی یہ غلط فہمی سے سمجھ سکتا تھا کہ دیکھو جی فلاں بت کی یاد تازہ کی جارہی ہے۔
اب ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں جس میں قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔
صحیح مسلم:جلد۱:باب:قبروں پر مسجد بنانے اور ان پر مردوں کی تصویریں رکھنے اور ان کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت کا بیان
ہمارے پیارے نبی محمدﷺ کا رُتبہ تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ بلند و بالا ہے امتیوں کی تو بات ہی نہ کی جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے معاشرے میں قبروں پر سجدے کیئے جا رہے ہیں اور کوئی بھی ان کو روکنے والا نہیں ہے اگر ان کو روکا جائے تو کہتے ہیں کہ ہم تو تعظیمی سجدہ کرتے ہیں اور جب کہ اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی حرام ہے اس پر حدیث پیش کرتا ہوں۔
سنن ابودائود:جلد:۲:موضوع کتاب:نکاح کا بیان:باب:عورت پر شوہر کا حق کیا ہے
اس حدیث سے ہمیں بہت سے سبق ملتے ہیں ان میں سے دو یہ ہیں کہ ایک تو کسی کو بھی تعظیمی سجدہ نہیں کیا جاسکتا یہ حرام قطعی ہے اور دوسرا کسی قبر پر بھی سجدہ نہیں کیا جاسکتا بےشک وہ قبر نبیﷺ کی ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اس سے ہمیں نبیﷺ نے منع کیا ہے اگر ہم واقعی اللہ اور نبیﷺ سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اللہ اور نبیﷺ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے اور جو ایسا کرئے گا اس کا انجام اللہ کی ناراضگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
اللہ اور رسولﷺ سے آگے بڑھنا یہی ہے کہ ان کے احکامات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے اور اپنی من مانی کی جائے یا کسی غیر نبی کی بات کو اللہ اور نبیﷺ کی بات کے مقابلے پر قبول کیا جائے۔
اللہ ہمیں صرف قرآن و سنت کی ہی پیروی کرنے کی توفیق دے آمین۔