رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاقِ حسنہ

آپ کا اخلاق قرآن مجید ہی تھا،ہر شخص سے قرآن پاک کے سبب راضی رہتے اور اسی کی وجہ سے ناراض ہوتے اپنی ذات کے لئے کسی سے بدلہ نہ لیتے اور نہ ہی خفا ہو تے، ہاں جب حرمات اللہ کی توہین کی جاتی تو پھر اللہ تعالیٰ کے لئے اظہار خفگی فرماتے
آپ تمام لوگوں سے بڑھ کر زبان کے سچے ،کفالت کے اعتبار پر پورا اترنے والے ،طبیت کے نرم،معاشرے میں مل جل کر رہنے میں ممتاز، کنواری لڑکیوں سے بھی بڑھ کر حیادار راستوں میں نگاہ نیچی رکھنے والے،فحش گو اور لعن،طعن کرنے والے قطعا نہیں،برائی کا بدلہ برائی سے بھی نہ دیتے بلکہ در گزر سے کام لیتے ہو ئے معاف فرما دیا کرتے تھے، کسی سائل کو بھی خالی ہاتھ واپس نہ کرتے اگر دینے کو کچھ نہ ہو تا تو کلمہ خیر کہہ دیتے ،آپ سخت گو اور تند مزاج بالکل نہ تھے، آپ کسی بات کرنے والے کی بات ہر گز نہ کاٹتے ہاں جب کو حق سے تجاوز کرنے لگتا تو پھر اسے ٹوکتے یا اٹھ کر چلے جاتے آپ اپنے پڑوسی کی حفاظت اور مہمان کی عزت کرنے والے تھے ،ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے سر گرم عمل رہتے ، اچھے شگون پسند اور بدشگونی کو ناپسند فرماتے ،جب دو کام سامنے ہوتے اور ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے میں کوئی گناہ کی بات نہ ہوتی تو آپ ہمیشہ آسان کام کو اختیار فرمالیا کرتے
غمزدہ کی دلجوئی اور مظلوم کی مدد کرنا آپ کو انتہائی پسندتھا،آپ اپنے صحابہ سے محبت فرماتے ،ان سے مشورہ لیتے اور جب کو ئی نظر نہ آتا تو اس کے متعلق ساتھیوں سے دریافت فرماتے اگر کوئی بیمار پڑ جاتا تو اس کی خیر گیری کرتے کوئی سفر پہ جاتا تو خیر و عافیت کی اور جب کوئی فوت ہو جاتا تو اس کے لئے بخشش کی دعا کرتے معذرت کرنے والے کی معذرت قبول فرماتے معاملہ میں آپ کے حضور ہر طاقتور اور ناتواں برابر ہوتا،آپ اس طرح تحمل مزاجی سے باتیں کیا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص الفاظ شمار کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا ،آپ مزاح بھی فرما لیا کرتے تھے،لیکن ہر بات حقیقت پر مبنی ہوا کرتی تھی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب اور تواضع
آپ تمام لوگوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے اور اپنے اصحاب کے ساتھ بڑی عزت و تکریم سے پیش آتے تھے جب کبھی مجلس میں جگہ تنگ پڑ جاتی تو آپ صحابہ کے لئے جگہ وسیع کرتے ،راستے میں جو ملتااسے سلام کرنے میں پہل کرتے ،جب کوئی مصافحہ کرتا تو اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ علیحدہ نہ کرتے یہاں تک کہ وہ اپنا ہاتھ علیحدہ کرتا ،آپ تواضع و انکساری میں تمام لوگوں سے آگے تھے،جن لوگوں کے پاس کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تو مجلس کے آخری حصے میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے اور اپنے صحابہ کو بھی اسی بات پر عمل کرنے کا حکم فرماتے مجلس میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کے ساتھ ایسا مساویانہ سلوک فرماتے کہ حاضرین میں سے کو ئی یہ گمان نہ کرتا کہ فلاں شخص آپ کے نزدیک مجھ سے افضل و برتر ہے جب آپ کے پاس کوئی شخص بیٹھ جاتا تو اس وقت تک اٹھ کرنہ جاتے جب تک وہ شخص خود نہ اٹھتا ھاں،اگر آپ کو کسی کام میں جلدی ہوتی تو اس سے اجازت طلب کر لیتے آپ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ آپ کے آنے پر لوگ کھڑے ہوں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نز دیک رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص زیادہ عزیز و محبوب نہیں تھا ،لیکن ان کی عادت مبارک یہ تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے دیکھتے تو تعظیما کھڑے نہ ہوتے ،اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں ۔مسند احمد،ترمذی یہ حدیث صحیح ہے
البتہ صاحب خانہ کے لئے مہمانوں کا استقبال کرنا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اسی طرح اگر کوئی سفر سے واپس لوٹے تو اس سے معانقہ کرنے کے لئے بھی کھڑا ہونا جائز ہے
آپ کسی شخص کے ساتھ بھی ایسے انداز سے پیش نہ آتے جسے وہ ناپسند سمجھتا ہو،بیماروں کی تیمارداری کرتے،غرباء و مساکین سے محبت فرماتے ،ان کے پاس بیٹھتے اور احوال دریافت فرماتے ،کوئی فوت ہو جاتا تو جنازہ میں مکمل شرکت فرماتے ،کسی فقیر اور تنگدست کو اس کے فقرو فاقہ کے باعث حقیر نہ سمجھتے اور نہ ہی کسی جاگیردار کی جاگیرداری سے مرعوب ہوتے ،تحفے کی نعمت کو بڑا سمجھتے اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو آپ کھانے میں کبھی عیب جوئی نہ کرتے تھے،چاہت ہوتی تو تناول فرمالیتے نہیں تو چھوڑ دیتے ،ہمیشہ کھانا پینا شروع کرتے ،بسم اللہ پڑھتے اور داہنے ہاتھ سے کھاتے پیتے اور فارغ ہو کر الحمداللہ پڑھتے،خوشبو پسند فرماتے اور بدبو دار چیزوں سے نفرت کرتے مثلا کچا لہسن ،پیاز وغیرہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اور فرمایا
اے اللہ،میرے اس حج کو ریاکاری اور دکھلاوے سے پاک رکھنا

آپ لباس زیب تن کرنے یا مجلس میں تشریف فرما ہونے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے امتیازی حیثیت نہیں رکھتے تھے،حتی کہ کوئی دیہاتی شخص حاضر ہوتا تو وہ پوچھتا ،تم میں محمد کون ہیں؟ قمیض آپ کا محبوب ترین لباس تھا،(نصف پنڈلیوں تک لمبی)خوراک اور لباس میں کبھی اسراف نہیں کرتے تھے،ٹوپی کے اوپر پگڑی باندھتے ،اور دائیں ہاتھ کی چھنگلی میں چاندی کی انگوٹھی رکھا کرتے تھے اور آپ کی گھنی ڈاڑھی مبارک تھی

رسو ل اللہ ﷺ کا لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا اور مشرکین سے جہاد کرنا
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا،تو آپ نے عرب سمیت تمام دنیا کے لوگوں کو اس چیز کی دعوت دی جس میں ان کی دنیا و آخرت کی بھلائی،سعادت ،فلاح اور کامیابی تھی،پہلی چیز جس کی طرف آپ نے بلایا وہ یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی کی جائے اور اللہ تعالیٰ کو پکارنا بھی عبادت ہی میں شامل ہے
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت

قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا
کہومیں تو صرف اپنے رب کو ہی پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا،سورۃ الجن

تو پھر مشرکین آپ کے مخالف ہو گئے کیونکہ یہ بات ان کے بت پوجنے والے عقیدے اور اندھی آبائی تقلید کے خلاف تھی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر زدہ اور مجنوں ہو نے کے الزامات تھونپ دیئے جب کہ اس سے پہلے وہ خود ہی آپ کو صادق اور امین جیسے القابات دے چکے تھے لیکن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کی تکالیف اور دشنام طرازیوں پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا،کیونکہ اللہ نے بھی آپ کو بایں الفاظ صبر کی تلقین فرمائی تھی

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا
پس تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو اور ان میں سے کسی بد عمل یا منکرحق کی بات نہ مانو،سورۃ دہر

بعثت کے بعد آپ تیرہ سال مکہ مکرمہ میں بمع اپنے متبعین کے ٹھہرے رہے لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی طرف بلاتے اور ان کی تکالیف پر صبر و تحمل سے کام لیتے رہے ،پھر آپ بمع صحابہ کے مدینہ منورہ ہجرت کر گئے تاکہ عدل محبت اور مساوات کی بنیادوں پر ایک نئی اسلامی مملکت قائم کریں،اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی معجزات کے ساتھ امداد فرمائی،توحید باری تعالیٰ کی طرف بلانے والے اہم ترین معجزات قرآن کریم،علم،جہاد اور آپ کا اخلاق حسنہ ہیں
دنیا کے مختلف بادشاہوں کی طرف آپ نے خطوط لکھے اور انہیں دعوت اسلام پیش کی مثلا آپ نے قیصر کی طرف لکھا
مسلمان ہو جا سلامت رہے گا اور تجھے اللہ تعالیٰ دہرے اجروثواب سے نوازے گا اور اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے ،سورۃ آل عمران
ایک دوسرے کو رب بنانے کا مطلب یہ ہے کہ جو علماء اپنی طرف سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا کر پیش کرتے ہیں ان کی اطاعت نہ کریں
جب ان لوگوں نے دعوت اسلام کو ٹھکرا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت جمع کر کے مشرکین اور یہود کے خلاف جنگیں لڑیں اور بالآخر ان پر غلبہ حاصل کیا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریبا بیس غزوات لڑے،جہاد ،دعوت اسلام اور اقوام عالم کو مختلف قسم کے ظلم و استبداد سے نجات دلانے کی خاطر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بیسیوں لشکر تیار کر کے مختلف علاقوں کی جانب روانہ کئے آپ صحابہ کو تعلیم دیا کرتے تھے کہ سب سے پہلے دعوت توحید پیش کریں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی اتباع
ارشاد باری تعالیٰ ہے

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے پیغمبر لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے؛ سورۃ آل عمران

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے ماں ،باپ ،اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں؛ بخاری و مسلم
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اخلاق حسنہ ،شجاعت اور عزت و بزرگی ایسی تمام صفات جمع کر دیں ہیں جو شخص آپ کو اچانک دیکھتا وہ مرعوب ہو جاتا اور جس کی آپ سے جان پہچان ہو جاتی وہ آپ سے محبت کرنے لگتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینارسالت پہنچا دی ہے امت کی مکمل خیر خواہی اور شیرازہ بندی کی اور اپنے صحابہ کے دل توحید باری تعالیٰ سے کھول دیئے پھر اسی چیز کا ہی اثر تھا کہ انہوں نے جہاد کر کے ملکوں کے ملک فتح کئے تاکہ لوگوں کو ظالم حکمران بندوں کی بندگی سے آزاد کر کے بندوں کے رب کی عبادت میں مشغول کر دیں انہوں نے ہم تک یہ دین اسلام بدعات و خرافات سے مبرا و منزہ پہنچا دیا ہے لہذا ہمیں نہ اس میں زیادتی کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کچھ کمی کرنے کی
ارشاد باری تعالیٰ ہے

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے لئے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے؛ سورۃ مائدہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
میں تو صرف اخلاقی خوبیوں کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیاہوں؛ مستدرک حاکم
یہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ ہیں آئیے ہم انہیں مکمل طور پر اپنائیں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے محب بن سکیں

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ایک بہترین نمونہ ہیں؛ سورۃ الاحزاب

یادرکھیں اللہ اور اس کے رسول کی سچی محبت کتاب اللہ اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث پر عمل کرنے اور ان کے مطابق فیصلہ دینے کا تقاضہ کرتی ہے،اور اس توحید سے محبت کرنے کا بھی تقاضہ کرتی ہے جس کی آپ دعوت دیتے رہے نیز قرآن و سنت پر عمل پیرا رہنے اور ان دونوں سے کسی دوسرے کے حکم یا قول کو مقدم نہ سمجھنے کا بھی تقاضہ کرتی ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو ،بیشک اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے؛ سورۃ حجرات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت میں سے یہ بھی ہے کہ اس توحید سے محبت کی جائے جس کی طرف آپ دعوت دیتے رہے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوا جائے اور جو شخص اس تو حید کی دعوت دے اس سے بھی اظہار محبت کیا جائے اور انہیں نفرت بھرے القابات نہ دیئے جائیں
اے اللہ ہمیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت اور سچی تابعداری اور آپ کی شفاعت عطا فرما اور آپ کے اخلاق حسنہ کے مطابق ہمارے اخلاق درست فرما
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے متعلق احادیث
یقیناًمیں تم میں ایسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم انہیں خوب مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے
کتاب اللہ اور میری سنت ، مستدرک حاکم؛ علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے
تم پر میری اور ہدیت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت لازمی ہے اسے خوب مضبوطی سے پکڑے رکھنا؛ مسند احمد،صحیح
جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی وہ اللہ کا نافرمان ہوا؛ صحیح بخاری
میری تعریف میں اس طرح مبالغہ آرائی نہ کرنا جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق مبالغہ سے کام لیا میں تو صرف ایک بندہ ہوں لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو؛ صحیح بخاری

اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو تباہ و برباد کرے کہ انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا؛ صحیح بخاری
جس شخص نے میرا نام لے کر کوئی ایسی بات بیان کی جو میں نے نہ کہی ہو تو وہ شخص اپنا ٹھکانا جہنم سمجھے؛ مسند احمد ،یہ حدیث صحیح ہے
میں غیر محرم عورتوں سے کبھی مصافحہ نہیں کرتا؛ ترمذی،یہ حدیث صحیح ہے
جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی،میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ بخاری و مسلم
اے اللہ میں ایسے علم سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو نفع بخش نہ ہو؛مسلم