اولیاء اللہ کا قصہ

یہ ان زندہ اولیاء اللہ کا قصہ ہے جو زندگی میں نیند کی حالت میں زمین کی سطح پر تین سو نو برس سوتے رہے اور تھک جانے پر پہلو بھی بدلتے رہے ۔مگر جب اللہ نے ان کو نیند سے بیدار کیا تو زمانے کے حالات سے بالکل بے خبر تھے۔ لیجئے، اب قرآن کی زبانی پڑھئے:

﴿ اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَاعَجَبًا ﴾ (الکھف:9)
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور کتبے والے ہمارے عجب نشانات میں سے ہیں ۔
﴿ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَاَھُمْ بِالْحَقِّ اِنَّھُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّھِمْ وَزِدْنٰھُمْ ھُدًی وَّرَبَطْنَاعَلٰی قُلُوْبِھِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَارَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَ مِنْ دُوْنِہٓ اِلٰھًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذََا شَطَطًا ھٰٓوٴُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْامِنْ دُوْنِہٓ اٰلِھَةً لَّوْ لَا یَاْتُوْنَ عَلَیْھِمْ بِسُلْطَانٍم بَیِّنٍ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللهِ کَذِبًا ﴾ (الکھف:15-13)
ہم ان کا قصہ آپ پر سچا بیان کرتے ہیں۔ وہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت بخشی۔ جب وہ(جابر حاکمِ وقت کے دربار میں) کھڑے ہوئے تو ہم نے ان کے دلوں پر گرہ باندھ دی(یعنی دلوں کو مضبوط کر دیا)۔پس انہوں نے کہا ہمارا پروردگار تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے۔ ہم اس کے علاوہ کسی معبود کو نہیں پکاریں گے۔ (اگر ہم نے ایسا کیا) تو یہ عقل سے بعید بات ہو گی۔ ہماری یہ قوم ہے کہ اس نے اس کے علاوہ معبود بنا رکھے ہیں۔ وہ اس کے لیے مکمل دلیل کیوں نہیں لاتے۔ بھلا اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے ۔ “

یہ گفتگو وہ اولیاء اللہ اُس کافر و جابر بادشاہ کے دربار میں کھڑے ہو کر، کر رہے تھے جس کا نام ”دقیانوس“ بتایا جاتا ہے۔ اس کے سامنے ان کو توحید اختیار کرنے کے جرم میں پیش کیا گیا تھا۔ اللہ نے ان کے حوصلے بلند رکھنے کے علاوہ ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دی :

﴿ وَاِذِاعْتَزَلْتُمُوْھُمْ وَمَا یَعْبُدُ وْنَ اِلَّااللهَ فَاْوُوْٓا اِلَی الْکَھْفِ یَنْشُرْلَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ رَّحْمَتِہ وَیُھَیِّءْ لَکُمْ مِّنْ اَمْرِکُمْ مِّرْفَقًا ﴾ (الکھف:18-16)
جب تم ان لوگوں اور اللہ کے سوا ان کے معبودوں سے فارغ ہو جاوٴ تو غار میں پناہ لے لو۔ تاکہ تمہارا پروردگار تمہارے لیے دامنِ رحمت وسیع فرما دے اور تمہارے لیے اس سے آرام کا سامان پیدا کر دے ۔ “

کہتے ہیں کہ بادشاہ نے کسی مصلحت کے تحت اور اپنی مصروفیت کے باعث اس کام کو کسی وقت پر ملتوی کر دیا۔ یہ اولیاء اللہ فارغ ہوتے ہی اس غار کی طرف چلے گئے۔ جس کے لیے اللہ نے ان کے دلوں میں وحی فرما دی تھی۔ ان کا ایک وفا دار کتا بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ یہ غار میں داخل ہو گئے اور اطمینان کا سانس لینے کے ساتھ ہی دعا مانگی:

﴿ اِذْاَوَی الْفِتْیَةُ اِلَی الْکَھْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً وَّھَیِّءْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا ﴾ (الکھف:10)
جب وہ نوجوان اس غار میں جا بیٹھے تو دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار، ہم کو اپنی طرف سے رحمت عطا فرما اور ہمارے اس اقدام سے ہمارے لیے بھلائی کے سامان پیدا فرما ۔

گھبراہٹ اور تھکاوٹ کی وجہ سے لیٹ گئے اور سو گئے۔ اللہ نے ان کی کیفیت یوں بیان فرمائی:

﴿ فَضَرَبْنَا عَلٰٓی اٰذَانِھِمْ فِی الْکَھْفِ سِنِیْنَ عَدَدًا ﴾ (الکھف:11)
تو ہم نے کئی برسوں کے لئے اُن کے کانوں کو تھپک دیا(یعنی انہیں سُلا دیا)۔
﴿ وَ تَرَی الشَّمْسَ اِذَاطَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَھْفِھِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ اِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَھُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّنہُ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللهِ مِنْ یَّھْدِ اللهُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہ وَلِیًّا مُّرْشِدًا وَتَحْسَبُھُمْ اَیْقَاظًا وَّھُمْ رُقُوْدٌ وَّ نُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ لَوِاطَّلَعْتَ عَلَیْھِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْھُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْھُمْ رُعْبًا ﴾ (الکھف:18-17)
تو دیکھے گا کہ سورج جب طلوع ہوتا ہے تو بچ کر ان کی غار کے داہنے طرف سے نکل جاتا ہے۔ جب غروب ہوتا ہے تو بائیں طرف سے بچ کر نکل جاتا ہے۔وہ میدان میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اللہ کے نشانات میں سے ہے۔ہدایت یافتہ وہی ہو سکتا ہے جس کو اللہ ہدایت دے۔ جس کو وہ گمراہ فرما دے اس کو کوئی دوست اور رہنما نہیں مل سکتا۔ تم سمجھو گے کہ وہ جاگ رہے ہیں مگر وہ محوِ خواب ہیں۔ ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹیں بدلواتے ہیں۔ ان کے کتے نے غار کی چوکھٹ پر بازو پھیلا رکھے ہیں۔ اگر تم ان کو کبھی جھانک کر دیکھ لو تم ان سے پشت پھیر کر بھاگ جاوٴ اور ان کا خوف تم پر چھا جائے ۔ “

یوں وہ اطمینان سے سوتے رہے یہاں تک کہ:

﴿ ولَبِثُوْافِیْ کَھْفِھِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا ﴾ (الکھف:25)
وہ اپنے غار میں تین سو نو برس سے زیادہ عرصہ تک پڑے رہے ۔

پھر:

﴿ وَکَذٰلِکَ بَعَثْنٰھُمْ لِیَتَسَآءَ لُوْابَیْنَھُمْ قَالَ قَآئِلٌ مِّنْھُمْ کَمْ لَبِثْتُمْ قَالُوْ لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالُوْا رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوْٓا اَحَدَکُمْ بِوَرَقِکُمْ ھٰذِہٓ اِلَی الْمَدِیْنَةِ فَلْیَنْظُرْ اَیُّھَآ اَزْکٰی طَعَامًا فَلْیَاْتِکُمْ بِرِزْقٍ مِّنْہُ وَلْیَتَلَطَّفْ وَلَا یُشْعِرَنَّ بِکُمْ اَحَدًا اِنَّھُمْ اِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوْکُمْ اَوْیُعِیْدُوْکُمْ فِی مِلَّتِھِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْٓا اِذََا اَبَدًا ﴾ (الکھف :20-19)
اس طرح ہم نے ان کو بیدار کر دیا تاکہ وہ آپس میں سوال کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا:”کتنی دیر سوئے رہے؟“ جواب دیا:” ایک یوم یا اس کا کچھ حصہ۔“ پھر کہا:” تمہارا پروردگار جانے کہ تم کتنا عرصہ سوئے رہے۔ پس تم سے ایک یہ رقم لے کر شہر کی طرف جائے۔ دیکھے کہ کون سا کھانا پاکیزہ ہے پس اس میں سے لے آئے۔ جو جائے اس کو چاہیئے کہ نرم گفتگو کرے۔ تمہارا پتہ بھی نہ ظاہر کرے۔ وہ لوگ تو ایسے ہیں کہ اگر تم پر غالب آ گئے تو تم کو پتھر مار کر ہلاک کر دیں گے۔ یا تم کو دوبارہ اپنے مذہب میں لے جائیں گے۔ تب تم کبھی کامیاب نہ ہو سکو گے۔“

غور فرمائیں! کہ تین سو نو برس سے زیادہ محوِ خواب رہے۔ زمین کے اوپرسانس بھی لیتے رہے، پہلو بھی بدلتے رہے ، مگر دنیا و مافیہا سے بے تعلقی کا یہ عالم کہ ان کو احساس ہی نہیں کہ کتنی بہاریں ان پر سے گذر کر خزاں ہو گئیں اور کتنے تاجدار پیوندِ خاک ہو چکے۔ وہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں ،مگر ان کو معلوم ہی نہیں کہ جس سے بھاگے تھے، وہ دنیا سے مدت ہوئی کوچ کر چکے ہیں۔اور باقی جو ہیں وہ ان کے قدر شناس اور ہمدرد ہیں۔ یہ حال ہے زمین کے اوپر محوِ خواب اولیاء کرام کا۔ پھر کوئی کس طرح کہہ سکتا ہے کہ زمین کے اندر قبر میں کئی من مٹی، اینٹوں اور سیمنٹ کے نیچے پڑا ہوا اللہ کا دوست، جو اللہ کا مہمانِ خصوصی ہے ،آپ کے حالات اور آپ کی آہ و فغان سے واقف اور خبر دار ہے؟ اللہ ہمیں قرآن مجید کے نظریہٴ توحید سے آشنا فرمائے۔ آمین۔