انسانی زندگی پر توحید کے اثرات

اسلام کی بنیادی تعلیم توحید ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کائنات میں معبود صرف ایک ہے اس وسیع وعریض کائنات میں بے شمار چیزیں ہیں جو بالواسطہ طریقے سے انسان کو متاثر کرتی ہیں جیسے سورج انسان کو گرمی پہنچاتا ہے، آگ جلاتی ہے، ہوا اڑاتی ہے۔ سانپ ڈستا ہے، بیماریاں انسان کو تکلیف میں مبتلا کرتی ہیں یا موت کا سبب بنتی ہیں مگر ان میں سے کسی کے اندر خدائی صفات نہیں ہیں۔ اگر انسان ان اشیاء کو اپنا خدا ماننے لگ جائے تو یہ شرک کہلائے گا اور بدترین ذہنی غلامی کی صورت قرار پائے گی۔ عقیدۂ توحید انسان پر پہلا اثر یہ ڈالتا ہے کہ اس کو ذہنی غلامی سے آزاد کراتا ہے اور مخلوق کے سامنے عاجزی وبے بسی کے اظہار سے روکتا ہے اور صرف خدائے حقیقی سے خوف وامید کاجذبہ پیدا کرتا ہے۔ قرآن مجید میں رسول کی جو منصبی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں ان میں قوموں کو بے جا عقائد اور توہمات کی بندشوں اور جکڑبندیوں سے آزادی دلانا بھی ہے۔ ارشاد ہے:

يَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ(الاعراف:۱۵۷)
’’وہ نبیؐ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے۔ بدی سے روکتا ہے۔ ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی ذات اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ جو اس حقیقت کو تسلیم نہ کرے اور اس کو چھوڑ کر دوسرے کو خدا سمجھنے لگ جائے تو گویا اس کی زندگی حق وصداقت سے دور ہوجاتی ہے۔ پھر وہ مفروضوں اور غیر حقیقی چیزوں کا پرستار ہوجاتا ہے۔ عقیدۂ توحید انسان پر ایک اثر یہ ڈالتا ہے کہ اس کو حقیقت پسند بناتا ہے اور اس کو تضادات سے بچاتا ہے۔ مفروضوں اور غیر حقیقی چیزوں پر تنقیدی نظر ڈالنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِہٖ حَدَاۗىِٕقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ۝۰ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَہَا۝۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝۰ۭ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ۝۶۰ۭ (النمل: ۶۰)
’’بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے وہ خوشنما باغ اُگائے جن کے درختوں کا اُگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی ہے۔ بلکہ یہی لوگ راہ راست سے ہٹ کر چلے جارہے ہیں۔‘‘

قرآن مجید میں اس اسلوب میں اور بھی بہت سی آیات وارد ہیں۔ ان میں انسانوں کو حقیقت پسندی کی دعوت دی گئی ہے۔
انسان کو خدا کی صحیح معرفت حاصل نہ ہو تو وہ نہ صرف اپنے کو بالکل خدا کی غلامی کے حوالے کردیتا ہے اور غیرحقیقت پسندانہ زندگی گزارتا ہے بلکہ خود اپنے نفس کی غلامی کی جکڑبندیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کی نفسانی خواہشات اس کو جو حکم دیتی ہیں اس کے مطابق وہ عمل کرنے لگتا ہے۔ قرآن مجید میں نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والے کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے جس کی زبان سے ہر وقت رال ٹپکتی رہتی ہے۔ ارشاد ہے۔

وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰكِنَّہٗٓ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ۝۰ۚ فَمَثَلُہٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ۝۰ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَيْہِ يَلْہَثْ اَوْ تَتْرُكْہُ يَلْہَثْ۝۰ۭ ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۝۰ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ۝۱۷۶ (الاعراف :۱۷۶)
اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا۔ لہٰذا اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے ہی رہے یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ تم یہ حکایات ان کو سناتے شاید کہ یہ کچھ غور وفکر کریں۔

اللہ تعالیٰ عظیم صفات والا ہے۔ جب انسان اللہ پر اس کی صفات کے ساتھ ایمان لے آتا ہے تو اس کے اندر سے اخلاق وکردار کاچشمہ پھوٹتا ہے اور وہ اپنے کو خدائی رنگ میں رنگنا چاہتا ہے خدا رحمت والا اور مہربان ہے تو وہ بھی دوسروں پر رحم کرنے والا اور مہربان کرنے والا ہو۔ خدا سخی ہے تو سخاوت اس کے اندر بھی ہو، خدا خلق کا ہمدرد ہے تو مخلوق سے ہمدردی کا جذبہ اس کے اندر بھی ہو، خدا سچائی کو پسند کرتاہے تو صدق وسچائی اس کا وصف بنے۔ خدا گناہگاروں کو معاف کرتا ہے تو وہ بھی انسانوں کی غلطیوں کو نظرانداز کرنے والا بنے غرض کہ خدا پر ایمان اور اس سے تعلق کردار واخلاق کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتا ہے لیکن جب خدا سے تعلق کا سرچشمہ ہی سوکھ جائے تو کردار کہاں سے پیدا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کفر وشرک اور الحاد کے اخلاق وکردار پیدا نہیں کرتا بلکہ بے کرداری پیدا کرتا ہے۔ خدا پرست کبھی بے ایمانی کامرتکب نہیں ہوسکتا۔ کبھی وہ غاصب اور ظالم نہیں ہوسکتا کیوں کہ خدا پرستی اسے اس کو ان بداعمالیوں سے روکتی ہے۔ جو سرجانوروں اور پتھروں کے آگے جھک سکتا ہو، وہ لالچ، خوف، خوشامد یا کسی اور جذبہ کے تحت کسی انسان کے آگے کیوں نہیں جھک سکتا؟ خدا حقیقی بندوں کو سزا دینے پر بھی قادر ہوتا ہے اس تصور سے انسان کے اندر برائیوں سے بچنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسی کتنی ہی مثالیں موجود ہیں کہ خوف خدا کی وجہ سے بعض مجرموں نے اپنے جرائم سے توبہ کرلیا۔مگرایک ملحد ، کافر یامشرک اپنے باطل خداؤں کے خوف سے ظلم وزیادتی سے باز رہاہو۔ اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔

اللہ کائنات کا خالق ومنتظم ہے۔ اس کے قبضۂ قدرت میں ساری کائنات ہے اور اس کا حکم اس میں جاری وساری ہے۔ زندگی اور موت، نفع ونقصان،عزت وذلت خوش قسمتی اور بدقسمتی سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس کے سوا کسی کو اختیار اور طاقت نہیں جو ان چیزوں میں ذرا بھی تصرف کرسکے۔ جب مومن کے اندر یہ عقیدہ جاگزین ہوجاتا ہے تو وہ غیر خدا سے نہ ڈرتا ہے نہ اس سے امید رکھتا ہے حتی کہ موت کا بھی سامنا دیوانہ طریقے سے کرتا ہے۔ اس کے اندر اعلیٰ ظرفی اورکشادہ دلی پیدا ہوتی ہے اور کم ظرفی، اور تنگ نظری سے وہ بچتا ہے۔ مومن کائنات کی وسعتوں کو دیکھتا ہے اور پھر اللہ کی صفات خلاقیت اور ربوبیت کاتصور کرتا ہے تو اس کے اندر اُمید کی کرن پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مشرک مادی طاقتوں سے خوف زدہ ہوتا ہے۔ توہمات کا شکار ہوتا ہے۔ بزدلی اور ڈرپوک ہوتا ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ احساس کمتری میں مبتلاہوتا ہے کیوں کہ شرک کے پیچھے کوئی لاجک اور دلیل نہیں ہے پھر جس کی وجہ سے وہ بے اطمینانی اور احساس کمتری میں زندگی گزارتا ہے۔ اور اس کے اثرات اس کے زندگی کے دوسرے معاملات میں مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

سَـنُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَكُوْا بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا۝۰ۚ (آل عمران:۱۵۱)
’’ہم کافروں کے دلوں میں خوف وہراس ڈال دیں گے کیوں کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ کچھ ہستیوں کو شریک ٹھہرایا ہے۔ حالانکہ اللہ نے ان کے شریک ہونے کی کوئی سند نہیں اُتاری۔‘‘

مومن باللہ اسباب اور تدابیر اختیار ضرور کرتا ہے کیوں کہ یہ اللہ کا حکم ہے مگر اس کااصل بھروسہ اور اعتماد اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر ہی ہوتا ہے۔

وَعَلَی اللہ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔
(اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ کرناچاہئے)

عقیدۂ توحیدانسان کو متحرک اور سرگرم عمل بناتا ہے۔ اس کی تصدیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت وزندگی سے ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کےبرگزیدہ اور منتخب کردہ تھے۔ مگر اس کے باوجود آپؐ کے شب وروز کی عبادات، دعوت وتبلیغ کے لیے آپؐ کی جدوجہد اسی طرح صحابہ کرام کا راہ جہاد میں جان ومال کی قربانی پیش کرنا اس بات کا ثبوت فراہم کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آنے کے بعد اللہ پر کامل بھروسہ کرکے۔ ہاتھ پاؤں توڑ کر گھرنہ بیٹھ گئے تھے بلکہ انہوں نے سعی وجہد کی زندگی گزاری۔ ارشاد باری ہے۔

وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ۝۰ۙ مَعَہٗ رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ۝۰ۚ فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا۝۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۴۶ (آل عمران:۱۴۶)
کتنے ہی نبی پہلے گزر چکے ہیں کہ ان کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی ہے اللہ کی راہ میں ان پر جو مصیبتیں آئیں اس سے انہوں نے نہ ہمت ہاری نہ کمزوری دکھائی اور نہ عاجزی اختیار کی۔ اللہ اس طرح ثابت قدم رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

جدوجہد کی راہ میں ایسی منازل بھی آتی ہیں جہاں انسان کی توانائی اور ہمت جواب دینے لگتی ہے اور اس کی قوت کمزور پڑجاتی ہے۔ وہ خود کو حددرجہ بے بس پاتا ہے اور کسی سہارے کی تلاش کرتا ہے ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ ہو تو بندہ مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ہے اور جدوجہد کی راہ سرد پڑجاتی ہے لیکن حقیقی مومن ان حالات میں بھی ہمت نہیںہارتا بلکہ اللہ پر اعتماد اور بھروسے میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ ارشاد ہے:

ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ۝۰ۡوَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِــيْمًا۝۲۲ۭ (الاحزاب:۲۲)
یہ تو وہ چیز ہے جس کا ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا (یہ خطرناک حالات) ان کے ایمان اور تسلیم میں اضافہ کا سبب بنے۔

بنیادی طور پر انسان ایک محتاج مخلوق ہے۔ مادی اعتبار سے بھی وہ مختلف ضروریات رکھتا ہے اور روحانی اعتبار سے بھی۔ انسان اگر ایک خدا کو چھوڑ کر سینکڑوں خداؤں سے اپنی ضروریات مانگنے لگے تو نہ صرف یہ شرف انسانیت کے خلاف ہے بلکہ اس کی خوداریٔ نفس کے بھی خلاف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بالکل خدا کسی کو کچھ دینے کی اہلیت نہیں رکھتے اور کسی ایسی ذات کے سامنے ہاتھ پھیلانا جو نہ دے سکتی ہو انسان کی ذلت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عقیدۂ توحید انسان کو اس ذلت سے بھی بچاتا ہے اور ایسی ذات سے مانگنے کی دعوت دیتا ہے۔ جو دینے والی ہے۔ وہ علیم وقدیر ہے۔ جس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔ارشادہے:

وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ۝۱۳ۭ اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۝۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۝۰ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۝۰ۭ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ۝۱۴ۧ (الفاطر۱۳۔۱۴)
اسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ کے مالک بھی نہیں ہیں۔ انہیں پکارو تو وہ تمہاری دُعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کردیں گے۔ حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔

قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ یہ معبود ان باطل ایک مکھی بھی پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ بلکہ مکھی کو دفاع کرنے کی بھی ان کے اندر طاقت نہیں ہے۔ بھلا ایسے خدا کے سامنے ہاتھ پھیلانا کہاں کی دانش مندی ہے۔

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ۝۰ۭ وَاِنْ يَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۝۰ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۝۷۳ مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ۝۷۴ (الحج:۳۷۔۷۴)
لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے غور سے سنو جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہےوہ بھی کمزور ۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہنچاننے کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والے تو اللہ ہی ہے۔

وحدت الٰہ وحدت انسانیت کا تصور بھی پیدا کرتا ہے یعنی اس پوری کائنات کا تنہا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور وہی سب انسانوں کاپیدا کرنے والا ہے۔ عصر حاضر میں سائنسی ترقیوں کی وجہ سے دنیا ایک گاؤں بن چکی ہے مگر دلوں اور ذہنوں کی تنگی کا حال یہ ہے کہ ہر قوم کا خدا بھی الگ ہے اور آدم بھی الگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہزاروں طرح کی قومیتیں پائی جاتی ہیں اور قومیتوں کے درمیان نہ صرف اختلافات پائے جاتے ہیں بلکہ ان کے درمیان خون ریزیاں ہوتی ہیں۔ اور ایک قومیت والا دوسری قومیت کے افراد کو قتل وغارت کرتا ہے۔ عقیدۂ توحید نہ صرف خدا کے بارے میں انسان کو متحد کرتا ہے بلکہ سارے انسانوں کو اولاد آدم قرار دیتا ہے۔ یعنی سارے انسان برابر اور مساوی حیثیت کے حامل ہیں۔ کسی کو کسی پر فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہے۔ رنگ ونسل اور جغرافیہ اور خطہ کی بنیاد پر انسانیت کی تقسیم عقیدۂ توحید کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ ارشاد ہے:

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ۝۱۳ (الحجرات:۱۳)
لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہنچانو درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے۔