
اللہ تبارک تعالی ہم سے بہت محبت کرتا ہے اور ہم پر بے انتہا مہربان ہے۔اسی کی محبت اور رحمت ہے کہ ہماری مغفرت اور بخشش کے لیے اس نے کئي راستے کھول رکھے ہیں جیسے ایمان لانا اور پھرنماز، روزہ ، حج، زکواۃ ، جہاد اور صدقات وغیرہ ۔ اس طرح ہماری تھوڑی سی کوشش کو بہت بڑھا کر اور بہت زیادہ شمار فرما کراللہ ہمارے اعمال کو ہماری مغفرت کا بہانہ بناتا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہےکہ ہمارے پاس اپنا ہے کیا جو ہم اللہ کی راہ میں استعمال یا خرچ کر سکیں۔زندگی ، صحت، جسم و جان ، دل و دماغ، سماعت و بصارت، مال و دولت ، غرض کوئي بھی نعمت اور پھرکسی اچھے عمل کی توفیق یہ سب اللہ ہی تو دیتا ہے اور اسی کی عطاکردہ چیز کو کہیں اس کے بتائے کسی راستے پر کسی کوشش میں تھوڑا بہت لگا کر ہم کونسا ایسا کارنامہ انجام دیتے ہیں جو اپنے اعمال کے بل بوتے پر مغفرت و جنت کا دعوی کر سکیں؟ اصل میں تو یہ اللہ ہی کی رحمت ہے جس کے باعث وہ ہماری خطاؤں سے درگزر فرما کر ہمیں معاف فرما دے۔ اللہ کی انہی بے پایاں رحمتوں میں سے ایک قیامت کے دن شفاعت یا سفارش ہے جس کی وہ قیامت کے دن اپنے چنیدہ بندوں کو اپنے کچھ ایسے اہل ایمان بندوں کے حق میں اجازت دے گا کہ کوتاہیوں اور لغزشوں کے باعث جن کےاچھے اعمال کا وزن تھوڑا بہت ہلکا ہوگا اور جن کی مجموعی کارکردگي کی بنا پر اللہ ان کو بخش دینے کا ارادہ فرما چکا ہوگا اور وہ شفاعت کے نتیجے میں سزا سے بچ جائیں گے اور جنت میں جائیں گےیا پھر وہ مومنین جوجہنم میں اپنی سزا بھگت چکے ہوں گے اور اللہ اپنی رحمت سے انہیں جنت میں پہنچانا چاہے گا۔شفاعت سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ کوئی اللہ کے فیصلے کو چیلنج کرے اور اس کو بدلنے پر مجبور کر دے یعنی اللہ تو کسی کو سزا دینا چاہے اور کوئی دوسرا اس کو چھڑا کر لے جائے۔بھلایہ کیونکر ممکن ہے کہ رسولﷺ یا دیگر انبیاء، صدیقین، شہداء،فرشتوں یا صالحین اولیاء میں سے کوئی اللہ کے کسی دشمن، باغی ،منکر یا نافرمان کے حق میں سفارش کرنا چاہے؟کیسی بدگمانی ہے یہ اللہ کے مقرب لوگوں کے ساتھ؟ سوچیے کہ ان لوگوں کی محبت اور ان کا تعلق اللہ سے ہے یا اللہ کے دشمنوں، ظالموں اور مجرموں سے؟ جو اللہ کا دشمن، باغی اور نافرمان ہو اور جسے اللہ سزا دینا چاہتا ہو وہ ان تمام لوگوں میں سے کسی کا دوست کیسے ہوسکتا ہے؟ شفاعت تودرحقیقت وہاں ایک موقع پراپنے بندوں کے حق میں اللہ ہی کی رحمت اور اس کے فیصلے کا حصہ ہے جو ایک طرف اللہ کی اپنے گناہگار بندوں پر خاص مہربانی اوربخشش کابہانہ ہے تو دوسری طرف اپنے خاص بندوں کی کمال عزت افزائي اوران کا اکرام واعزاز ہے۔جو لوگ اس شفاعت سے مستفید ہوں گے ان کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ وہ کچھ نمبروں سے فیل ہو رہے تھے اور رعایتی نمبر دلوا کر پاس کیا جا رہا ہے۔
روز قیامت شفاعت کی ابتدا اللہ کے اذن سے رسول اللہﷺ سے ہوگی اورپھر دیگر شفاعتیں اورسفارشات ہوں گی۔اگرشفاعت کا عقیدہ صحیح اور واضح نہ ہو تو اس میں ذرا سی بھی ناسمجھی اور غلطی شرک کی کئي قسموں میں ملوث ہونے اور نتیجتا آخرت میں بہت بڑی ناکامی کا سبب بن سکتی ہے۔ آج ہم اسی موضوع کے بارے میں قر آن و حدیث سے رہنمائی لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلی حقیقت
اس بارے میں پہلی سچائی یہ ہے کہ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ اس دن فیصلہ کا کلی اختیار بس اللہ ہی کو ہوگا ، کوئی محض اپنی خواہش یا بل بوتے پر کسی کے لیےکچھ بھی نہ کرسکے گا۔ مجرموں کا نہ کوئی دوست ہوگا نہ کوئی سفارش کرنے والا اور جنہیں اللہ سزا دینا چاہے ان کے لیے کوئي شفاعت نہیں ہوگی اور مجرموں کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا:
يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ {19}
۔۔۔وَمَا لَهُم مِّنَ اللهِ مِن وَاقٍ {34}
وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ {48}
وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُواْ إِلَى رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلاَ شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ {51}
وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ {18}
کہاں تو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کچھ بزرگ اور سفارشی ایسےزور آور ہیں کہ جن کی بات تو چل کر ہی رہتی ہےاور جن کی سفارش ٹل نہیں سکتی، بس ان کا دامن پکڑ لو اور آخرت سے بے فکر ہوجاؤ۔ جو مرضی کر لو چھڑا لیں گے اور کہاں قرآن یہ منظر بیان کرتا ہے کہ اس پر جلال عدالت میں تو مخلوق کی بزرگ ترین ہستیوں اور معزز ترین فرشتوں تک کو بھی بولنے کا یارا نہ ہو گا، وہاں تو کوئی بات بھی نہ کر سکے گا الا یہ کہ اللہ کی اجازت سے کچھ عرض کرے:
يَوْمَ يَأْتِ لاَ تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ ۔۔۔ {105}
يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا {38}
اس بارےمیں تفہیم القرآن سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
"وہاں کسی کے اڑ کر بیٹھ جانے اور اپنے متوسلین کوبخشوا کر چھوڑنے کا کیا سوال، کوئي بلااجازت زبان تک نہ کھول سکے گا، اور اجازت بھی اس شرط کے ساتھ ملےگی کہ جس کے حق میں سفارش کا اذن ہو صرف اسی کے لیے سفارش کرےاور سفارش میں کوئی بے جا بات نہ کہے۔ نیز سفارش کی اجازت صرف ان لوگوں کے حق میں دی جائے گي جو دنیا میں کلمہءحق کے قائل رہے ہیں اور محض گناہ گار ہیں۔ اللہ کے باغی اور حق کے منکر کسی سفارش کے مستحق نہ ہوں گے۔"
دوسری حقیقت
اس معاملے میں دوسری بات ہمیں قرآن حکیم سے یہ معلوم ہوتی ہےکہ لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا سفارش ساری کی ساری اللہ ہی کے اختیار میں ہوگی یعنی سفارش وہ کر سکے گا جسے اللہ اجازت دے اور اسی کے حق میں کر سکے گا جس کے حق میں اللہ کی طرف سےاجازت دی جائے۔ اب اگر آپ ایک ہی بات پر غور فرمائیے تو آپ کا دل بھی پکار اٹھے گا کہ ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ دیکھیے قیامت کا دن وہ دن ہے جہاں انصاف ہوگا اور فیصلہ میرٹ پر ہوگا، اب اگر وہاں بھی فیصلوں میں اللہ کے سوا کچھ دوسری ہستیاں بذات خود اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہوں تو پھر انصاف کیونکر ہو سکے گا؟ مخلوق تو نام ہی محتاجی و کمزوری کا ہے۔ مخلوق اگر اپنے علم اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق فیصلہ کرے تو اس میں کتنی ہی کمزوریاں رہ جاتی ہیں جس علم، حکمت ودانائی اور حقیقت کی بنا پر اللہ العلیم و الخبیرمبنی بر انصاف فیصلہ فرما ئے گا کیا اس کی کسی مخلوق سے توقع بھی کی جا سکتی ہے؟ جیسا غنی و بے نیاز اللہ ہے کیا ایسا کوئی اور بھی ہے کہ جس کے انصاف پر کوئی اثر انداز نہ ہوسکے؟ اور اگر ہم یہاں یہ کہیں کہ کوئی دوسری ذات بھی ایسی ہے جو اسی طرح انصاف کر سکتی ہے تو پھر لازم ہے کہ اس کے اندر بھی وہی صفات بالکل اسی طرح موجود ہونی چاہییں جو اللہ کی صفات ہیں ۔ کیا کوئی بھی دوسرا ایسا ہے؟ نہیں ناں۔۔۔؟ اور اگر کوئی ایسا سمجھےتو پھر اس کے لیے شرک کے ایک نہیں سینکڑوں دروازے کھل جاتے ہیں۔
کچھ آیات ملاحظہ ہوں:
۔۔۔مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ ۔۔۔{255}
أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاء قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ {43} قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ {44} وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ {45}
تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کُڑھنے لگتے ہیں، اور جب اُس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کِھل اُٹھتے ہیں۔
شفاعت صرف وہ لوگ کر سکیں گے جنہیں اللہ اس کی اجازت دے گا:
يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا {109}
إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الأَمْرَ مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ {3}
وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ {86}
لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا {87}
وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَاء وَيَرْضَى {26}
۔۔۔ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ {28}
قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ {22} وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ {23}
شفاعت پر اللہ ہی کے اذن و اختیار کی پابندی کیوں ہے؟
"فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاءکسی کو بھی یہ معلوم نہیں اور نہیں ہو سکتا کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے، کون دنیا میں کیا کرتا رہا ہے، اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت وکردار اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر آیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کوہر ایک کے پچھلےکارناموں اورکرتوتوں کا بھی علم ہے اوروہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کے درجے کا مجرم ہے۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں۔ پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف و رعایت بھی اس کےساتھ کی جا سکتی ہے۔ایسے میں یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اورصلحاء کو سفارش کی کھلی اجازت دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کردے۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے ہر دوست یا عزیز کی سفارشیں سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیا ناس کر کے رکھ دے گا۔ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہوگا، اور ہر ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشوا لائیں گے، درانحالیکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں کہ جن لو گوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامہء اعمال کیسے ہیں۔ دنیا میں جو افسر کچھ بھی احساس ذمہ داری رکھتا ہو اس کی روش یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کا کوئي دوست اس کے کسی قصور وار ماتحت کی سفارش لے کر جاتا ہے تووہ اس سے کہتا ہے کہ آپ کوخبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور، نافرض شناس، رشوت خور اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے، میں اس کے کرتوتوں سے واقف ہوں، اس لیے آپ براہ کرم مجھ سے اس کی سفارش نہ فرمائیں۔اسی چھوٹی سی مثال پر قیاس کر کے اندازہ کیا جا سکتا ہےکہ قرآن میں شفاعت کے متعلق جو قاعدہ بیان کیا گيا ہے وہ کس قدر صحیح، معقول اور مبنی بر انصاف ہے۔ہاں اللہ کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہوگا۔ نیک بندے جو دنیا میں خلق خدا کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرنے کے عادی تھے انہیں آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے کا موقع دیا جائےگا۔ لیکن وہ سفارش سےپہلے اجازت طلب کریں گے اور جس کے حق میں اللہ تعالی انہیں بولنے کی اجازت دےگا صرف اسی کے حق میں وہ سفارش کر سکیں گے۔ پھرسفارش کے لیے بھی شرط یہ ہو گي کہ وہ مناسب اور مبنی بر حق ہو، جیسا کہ وَقَالَ صَوَابًا(اور وہ بات ٹھیک کہے) کا ارشاد ربانی صاف بتا رہا ہے۔ بونگی سفارشیں کرنے کی وہاں اجازت نہ ہوگی کہ ایک شخص دنیا میں سینکڑوں، ہزاروں بندگان اللہ کے حقوق مار آیا ہو اور کوئي بزرگ اٹھ کر سفارش کردیں کہ حضور اسے انعام سے سرفراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے۔"
تاریخ سے انبیاء علیہم السلام کی کچھ مثالیں
اب ہم قرآن حکیم سے مخلوقات کی سب سے زیادہ برگزیدہ، جلیل القدر، محترم و معتبر اور عزت والی ہستیوں یعنی انبیاء اور رسولوں علیھم السلام کی مثالیں دیکھتے ہیں کہ کسی کی کامیابی یا ناکامی کے خدائي فیصلوں میں وہ کیا کر سکے۔مخلوق میں ان اعلی ترین ہستیوں کے اپنے پیارے بیٹے،والد، بیویاں اور رشتہ دار اللہ کے عذاب اورجہنم کے مستحق ہوئے اور یہ لوگ ان کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے۔کچھ آیات کا مطالعہ کیجیے اور بتلائیے کہ فیصلے کا تمام تر اختیار کس کے ہاتھ میں ہے۔کون بالادست ہے اور کس کا حکم ہی آخری ہے؟ دیکھیےاتنی بڑی بزرگ ہستیاں اپنے قریبی رشتہ داروں کوجن کے حق میں اللہ نےناکامی کا فیصلہ کیا ، آگ سے نہ بچا سکیں اور اللہ ہی کا فیصلہ غالب آ کر رہا تو اللہ سے بغاوت کر کے، کفر و شرک اوربرائیوں میں مبتلا ہو کر کوئی کیسے کسی سے یہ امید لگا سکتا ہے کہ اس کی سفارش کر دی جائے گي اور اسے بخشوا دیا جائے گا۔کیا دنیا میں خود ہی کسی کوولی یا بزرگ مان کراپنا سفارشی بنا لینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کو اللہ کی طرف سے اذن شفاعت مل کررہے گا؟
آیات ملاحظہ ہوں:
حکم ہوا"اے زمین، اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان رُک جا۔" چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا، فیصلہ چکا دیا گیا، کشتی جُودی پر ٹِک گئی، اور کہہ دیا گیا کہ دور ہوئی ظالموں کی قوم!
نوح(علیہ السلام)نے اپنے رب کو پکارا۔کہا"اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہےاور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے۔"جواب میں ارشاد ہوا"اے نوح، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے،لہذاتو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کرجس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے۔"نوح(علیہ السلام) نے فوراً عرض کیا"اے میرےرب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تونے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔"
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَاِمْرَأَةَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ {10}
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِي قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ {113} وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لأوَّاهٌ حَلِيمٌ {114}
نوح علیہ السلام کا بیٹا ان کی آنکھوں کےسامنے ڈوب گیا اور اللہ نے اس کے حق میں دعا کرنےسے بھی روک دیا۔ان کی اور لوط علیہ السلام کی بیویاں آگ میں چلی گئیں اور اتنی بڑی ہستیوں کی زوجیت میں ہونا ان کے کسی کام نہ آیا، اور ابراھیم علیہ السلام کی اپنے والد سے اس لیے بیزاری و براءت کہ وہ اللہ کا دشمن تھا، کیا یہ سب ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں کہ فیصلوں کا اختیار بس اللہ ہی کو ہے؟
نبی ﷺ سے خطاب
اپنے چچا ابو طالب کے لیے ہمارے نبی ﷺکی محبت اور تڑپ تو آپ کویاد ہی ہوگی اب اللہ کا یہ حکم دیکھیے جن میں ہمارےنبیﷺ سے خطاب فرمایا جا رہا ہے:
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ {56}
منافقین کے بارے میں نبیﷺ سے خطاب کی کچھ اور آیات:
سَوَاء عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ {6}
اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللّهُ لَهُمْ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ {80}
وَلاَ تَكُن لِّلْخَآئِنِينَ خَصِيمًا {105} وَاسْتَغْفِرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا {106} وَلاَ تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنفُسَهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا {107}
۔۔۔قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الأَرْضِ جَمِيعًا ۔۔۔{17}
اگراتنے جلیل القدر انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کا اس معاملے میں یہ حال ہے توکسی دوسرےکے معاملےمیں کون یہ طے کر سکتا ہے کہ وہ ولی اور برگزیدہ بزرگ ہے اور ایسا طاقتور ہے کہ بس ہمارا کام بنا کرہی چھوڑے گا۔ اس کا تو اپنا مقدمہ بھی اسی عدالت میں جانا ہے جس میں ہمارا مقدمہ جائےگا۔اگر وہ خود کامیا ب ہو بھی جائے تو اس کی کیا دلیل ہے کہ اسے اللہ شفاعت کی اجازت بھی دےگا۔ آپ کیا کہیں گے اس طالب علم کے بارے میں جو امتحان کی تیاری اور محنت بالکل چھوڑدے اور کمرہءامتحان میں جوابی پرچے پرکچھ بھی نہ لکھے یاغلط لکھے اوربس رعایتی نمبروں کی امید پر بیٹھا ہواور وہ امید بھی ممتحن کے بجائے اس سے لگائے جو خود اسی کمرہ میں بیٹھا امتحان دے رہا ہو، جبکہ حقیقت میں اس کی مدد کرنے والا کوئی بھی نہ ہو؟ جہاں انبیاءاور رسول علیھم السلام نفسی نفسی پکار رہے ہوں گے وہاں کسی دوسرے سے امید لگانا مہلک نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟
درج بالا آیات کے تناظر میں دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں سےدنیا اور آخرت میں امیدیں باندھتے ہیں اور انہیں صاحب اختیار اور قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والے سمجھتے ہیں وہ محض وہم و گمان اورجھوٹ کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی امیدیں ایک دن غلط ثابت ہوں گي۔سچائي تو یہ ہے کہ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ(خبردار رہو!اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے) اللہ ہی نے تخلیق کیا ہے اور حکم بھی اسی کاہی چلتا ہے اور لاَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے۔
تفہیم القرآن سےایک اقتباس ملاحظہ ہو:
"کائنات کے گوشے گوشے میں ہر وقت ہر آن جو کچھ ہو رہا ہے براہ راست اللہ کے حکم و اذن سے ہو رہا ہے۔دنیا کی تدبیرو انتظام میں کسی دوسرے کا دخیل ہونا تو درکنار کوئی اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ اللہ سے سفارش کرکے اس کا کوئي فیصلہ بدلوا دے یا کسی کی قسمت بنوا دے یا بگڑوا دے۔زیادہ سے زیادہ کوئي جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ اللہ سے دعا کرے،مگر اس دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ اللہ کی خدائي میں اتنا زوردار کوئي نہیں ہے کہ اس کی بات چل کر رہے اور اس کی سفارش ٹل نہ سکے اور وہ عرش کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جائے اور اپنی بات منوا کر ہی رہے۔"
(اگرچہ یہ بات وموضوع سے متعلق نہیں لیکن بات اہم ہے اس لیےبرسبیل تذکرہ ہم آپ کو یہ بھی بتلاتے چلیں کہ انہی آیات سے ہمیں ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ کسی داعی الی اللہ پر یہ اعتراض کرنا ہرگز ٹھیک نہیں کہ "اجی اس کی تو اپنی بیوی یا بیٹا یا والدین یا رشتہ دار اس کی بات نہیں مانتے"ہدایت اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔اگر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ یہ معاملہ رہا تو ان میں کوئي کمی تھوڑی تھی اور ان کے کردار و اسلوب دعوت کے مقابلہ میں کوئی بھی دوسرا کیا حیثیت رکھتا ہے۔تو اپنوں کا ماننا یا نہ ماننا دعوت کے حق یا جھوٹا ہونے کا ثبوت ہرگز نہیں۔ ہمارے نبی ﷺ سے جنگیں کرنے والے بھی تو آپ کے اپنے ہی تھے۔لہذا کسی پر ایسا اعتراض کہ اس کے تو اپنے نہیں مانتے جہالت کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔)
اب انسانوں کے گھڑے ہوئے ایک جھوٹ اور شرک کے ایک بڑے ذریعے یعنی خود ساختہ سفارشیوں کے اختیار کےبارے میں اس قرآنی آیت پر غور فرمائیے:
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللهِ مَا لاَ يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللّهَ بِمَا لاَ يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلاَ فِي الأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ {18}
تفہیم القرآن سے ہی ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:
"یعنی ان لوگوں نے اپنےطور پرخود ہی یہ فرض کر لیا ہے کہ کچھ ہستیاں اللہ کے ہاں بڑ ی زور آور ہیں جن کی سفارش کس طرح ٹل نہیں سکتی، حالانکہ نہ اللہ تعالی نے کبھی یہ فرمایا ہے کہ ان کو میرے ہاں یہ مرتبہ حاصل ہے، اور نہ خود ان ہستیوں نے کبھی یہ دعوی کیا کہ ہم اپنے زور سے تمہارے سارے کام بنوا دیا کریں گے۔اس پر مزید حماقت ان لوگوں کی یہ ہےکہ اصل مالک کو چھوڑ کر ان فرضی سفارشیوں ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کی ساری نیاز مندیاں انہی کے لیے وقف ہیں۔حالانکہ کس کا یہ زور نہیں کہ اللہ تعالی کے حضور میں خود سفارشی بن کر اٹھ ہی سکے، کجا کہ اپنی سفارش منوا لینےکی طاقت بھی اس میں ہو۔ یہ بات تو بالکل اللہ کے اختیار میں ہے کہ جسے چاہے سفارش کی اجازت دے اور جسے چاہے نہ دے۔ اورجس کے حق میں چاہےکسی کو سفارش کرنے دے اور جس کے حق میں چاہے نہ کرنے دے۔"
خلاصہ یہ کہ شفاعت گناہگار مومنین موحدین پر اللہ کی خاص رحمت اور ان کےحق میں اللہ ہی کے فیصلے کا حصہ ہے۔شفاعت سے اللہ کا کوئي فیصلہ بدلا نہیں جا سکتا اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اللہ تو کسی کو سزا دینا چاہے اور کوئي دوسرا اسے چھڑا لے جائے۔اسی لیے شفاعت ساری کی ساری اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔شفاعت کرنے والوں کو اللہ قیامت کی عدالت میں ساری خلقت کے سامنے بہت بڑی عزت سے نوازے گا۔اور انہیں سفارش کرنے کا مقام عطا فرما کر یہ ثابت کر دیا جائے گا کہ مخلوق میں معزز ترین وہی ہیں۔شفاعت کرنےاور پانے دونوں کےلیے اللہ کی اجازت ضروری ہے اور اللہ کی طرف سے شفاعت کی اجازت صرف انہی مومن و موحد لوگوں کے حق میں دی جائے گی جوخلوص سے کلمہء توحید کے قائل رہے ہوں اور شرک پر نہ مرے ہوں کیونکہ شرک ناقابل معافی گناہ ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
"ہر نبی کی ایک دعا ایسی ہے جوضرور قبول ہوتی ہے ہر نبی نے جلدی کی اور (دنیا میں ہی)وہ مانگ لی جبکہ میں نے اپنی دعا قیامت کے روز اپنی امت کی شفاعت کے لئے محفوظ کر رکھی ہے میری یہ سفارش ہر اس آدمی کو پہنچے گي جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا۔"رواہ مسلم
ہم نے حضرت محمدﷺ کا کلمہ پڑھا ہے اللہ ہمیں آپﷺ کے امتی ہونے کےعہدو اعزاز کو مرتے دم تک نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اورقیامت کے دن آپﷺکی شفاعت کے مستحق امتی ہونے کی حیثیت سے ہی اٹھائے۔کتنی ہی احادیث پڑھ کر دل لرز اٹھتا ہے جن میں یہ بیان ہے کہ آپﷺ کے کچھ امتی حوض کوثر پر آپﷺ کی طرف بڑھنا چاہیں لیکن فرشتے انہیں یہ کہہ کر روک دیں گے کہ ان کا آپﷺ سے کوئي تعلق نہیں اور کتنی ہی احادیث ایسی ہیں جن میں نبیﷺنے خودیہ فرمایا کہ جس نے یہ اور یہ کام کیے فلیس منا وہ ہم میں سے نہیں۔ اللہ ہمیں آپﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے۔
اللہ کی اجازت سےاس عزت افزائی یعنی سفارش یا شفاعت کبری کی ابتداء جناب نبیﷺسے ہوگی اورعلماء یہ کہتے ہیں کہ یہ بھی آپ ﷺ کا مقام محمود پر فائز کیا جانا یا اس کا ایک حصہ ہے۔پھر دیگر انبیاء، صدیقین،شہداء،صالحین ، اولیاء، اہل ایمان اور ملائکہ اللہ کی اجازت سے شفاعت فرمائیں گے۔ جو لوگ توحید پر ایمان لاتے ہیں اور شرک نہیں کرتےاللہ کی ان سے محبت و رحم کا معاملہ دیکھیے کہ ایک وقت وہ آئے گا کہ روزہ، قرآن ، جنت ،جہنم، قرآن کی مختلف سورتیں(جیسے سورہ ال عمران،ا لبقرہ،ملک) بھی ان کے حق میں اللہ سے سفارش کریں گی۔آخر میں اللہ خود بھی لوگوں کو جہنم سے نکالے گا اوراللہ کی رحمت سے ایک وقت وہ آئے گا کہ کوئی بھی کلمہ گو موحدجہنم میں نہ رہے گا،جس کے دل میں رتی برابر بھی ایما ن ہو گا وہ بھی اپنی سزا بھگتنے کے بعداللہ کی رحمت سے جنت میں جائے گا۔اور جہنم میں صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جنہیں قرآن روک دے گا مثلا کافر اور مشرک۔ہمیں یہ سفارشیں پانےوالے مختلف اعمال بھی بتلائے گئےہیں مثلاً اذان سننے کے بعد کی دعا، دس مرتبہ صبح ، دس مرتبہ شام نبیﷺ پر درود بھیجنا، روزے رکھنا، نوافل، سورۃ ملک، بقرہ، ال عمران اور قرآن کی بکثرت تلاوت، اللہ سے تین مرتبہ جنت طلب کرنا اورتین مرتبہ جہنم سے پناہ مانگنا وغیرہ لیکن شرط یہ ہے کہ ہم سچے دل سے توحید کے قائل ہوں، شرک نہ کرتے ہوں، شفاعت کا صحیح عقیدہ رکھتے ہوں اور اس کے منکر نہ ہوں۔اللہ ہمارے عقائد درست فرمائے، حق کو ہم پر واضح کر ے اوراپنی اس رحمت یعنی شفاعت میں ہمیں بھی حصہ دار بنائے۔(آمین)
آئیےاختتام میں اللہ سے دعا کرتے ہیں