کیسی مدد کا مانگنا شرک ہے

مدد دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک مدد سے شرک ثابت نہیں ہوتا جبکہ دوسری قسم کی مدد سراسر شرک ہے ۔
اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں :
ایک ڈوبتا ہوا شخص جب پاس والے کسی دوسرے شخص سے مدد مانگتا ہے تو وہ شرک نہیں کر رہا ہوتا۔ کیونکہ وہ اسباب کے تحت مدد مانگ رہا ہے۔ اور ایسی مدد مانگنے کا ثبوت قرآن سے بھی ملتا ہے۔
جیسے درج ذیل آیات :
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟
(سورہ 3 ، آیت : 52)

تمہارے پاس جو رسول آئے تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔
(سورہ 3 ، آیت : 81)

نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو (سورہ 5 ، آیت : 2)
کیونکہ اس مدد کے مانگنے میں عقیدہ شامل نہیں ہوتا۔ کوئی غیر مسلم ہو ، یا کوئی اللہ پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔۔۔ سب ایسی مدد مانگتے ہی ہیں ۔ اور کوئی بھی انسان چاہے وہ نبی ہو، رسول ہو یا بہت بڑا ولی اللہ ہی کیوں نہ ہو، اس کو کسی نہ کسی درجے میں دوسرے انسانوں کی مدد چاہئے ہی ہوتی ہے۔ اگر قرآن کی آیات میں ہمیں یہ سمجھا یاجا رہا ہے کہ ایسی مدد بھی اللہ ہی سے مانگو اور کسی انسان سے مدد نہ مانگو تو یہ تو انسان کے بس میں ہی نہیں۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن جن معنوں میں اللہ کو بطور ولی و مددگار کافی قرار دیتا ہے ۔ وہ اسباب کے تحت والی مدد کے معنوں میں نہیں کہتا۔
بلکہ مافوق الاسباب یعنی بغیر اسباب والی مدد کے معنوں میں قرار دیتا ہے۔
مثلا یہی ڈوبتا ہوا شخص ، جبکہ اس کے پاس کوئی دوسرا موجود نہ ہو۔ تو یہ اب اسباب سے ہٹ کر دور بیٹھے یا قبر میں لیٹے کسی بزرگ ، ولی یا نبی کو پکارنا شروع کر دے۔ تو یہاں پر اسباب موجود نہیں۔
یہ ہے عقیدہ کا مسئلہ۔ اور یہی صریح شرک ہے۔ اس جگہ پر ایسی حالت میں جب وسائل موجود نہیں تو اس کو صرف اور صرف اللہ کو پکارنا چاہئے اور اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔
اب یہ مسئلہ مقید ہو گیا صرف
ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی بحث میں ۔
یہ بات بھی بغیر دلیل کے نہیں کی جار ہی ہے۔ قرآن کریم کی ایک آیت میں یہ مسئلہ بیان کر دیا گیا ہے ، ملاحظہ فرمائیے :
(مشرکو!) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں۔ اچھا تم ان کو پکارو اگر تم سچے ہو تو چاہئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں۔ بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں ۔ (سورہ الاعراف 7 ، آیت : 194)
مندرجہ بالا آیت میں اللہ کے سوا بندوں کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی بتلایا جا رہا ہے کہ اگر پکارا جانے والا شخص جواب دے سکے، چل سکے، ہاتھ سے پکڑ سکے، آنکھ سے دیکھ سکے یا کان سے سن سکے تو پھر ٹھیک ہے۔ پھر ان کو پکارا جا سکتا ہے۔
کیونکہ یہ پکارنا ماتحت الاسباب ہوگا۔
پس ثابت ہوا کہ کسی کوولی بمعنی دوست سمجھ کر پکارا جائے ، تو درست وجائز۔ اور اگر مافوق الفطرت طور پر پکارا جائے جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارا جاتا ہے ۔ تو یہ ناجائز ہے ۔
ایک صاحبِ محترم نے اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ ۔۔۔
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ، چھوٹی بڑی چیز کی تفریق اور مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب کی تقسیم کی یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے ، اور معبود مانے بغیر وسیلہ اور سبب کے درجے میں مانتے ہوئے مخلوق سے سوال درست ہے ۔۔۔
ہم تو قرآن کی آیات سے واضح کر چکے ہیں کہ مدد کے معاملے میں اصل بحث سراسر ۔۔۔ ان ہی دو مطالب میں ہے ، یعنی : ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب !
اب آئیے ذرا ان صاحب کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں ۔۔۔ وہ فرماتے ہیں :
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ۔
دوسرے معنوں میں ان کا کہنا ہے کہ جو کسی کو معبود مان کر مدد مانگے وہ مشرک ہے ۔
ان کے اس فلسفے کی رو سے تو وہ سارے ہی روشن خیال غیرمسلم (چاہے وہ بت پرست ہوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پوجنے والے ہوں) ۔۔۔ ان کے نزدیک مشرک نہیں ہوں گے ۔
کیونکہ ۔۔۔
ان صاحب کو یہ کیسے پتا کہ وہ بتوں کو یا کسی نبی کو معبود مانتے ہیں؟
آج کا ایک پڑھا لکھا ہندو یا عیسائی ۔۔۔ اپنے کسی ظاہری عمل سے یہ نہیں جتاتا کہ وہ کس کس کو معبود مانتا ہے ؟
کسی کو معبود ماننا دل کی یا نیت کی بات ہوتی ہے ۔ اور یہ سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا ۔
لہذا جب ہم یہ جانتے ہی نہیں کون کس کو معبود مان رہا ہے ۔۔۔ تو شرک اور مشرک کی یہ ساری بحث ہی ختم ہو جاتی ہے ۔
اس طرح تو ہم میں سے کوئی بھی انسان کسی بھی دوسرے انسان کو (چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم) مشرک نہ کہہ سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے ۔
پھر یہ جو قرآن اور حدیث بار بار مشرکین سے دور رہنے اور ان کی دوستی سے باز رہنے کا حکم دیتے ہیں ۔۔۔ یہ سب کہاں جائے گا ؟
جب ہم مشرک کو اس لیے نہیں پہچان سکتے کہ ہم اس کے دل کا حال نہیں جانتے اور یہ نہیں جانتے کہ وہ دل سے کس کس کو معبود مانتا ہے ۔۔۔ تو پھر ہم کس بنیاد پر اس کو مشرک قرار دے سکتے ہیں؟
ثابت ہوا کہ ان صاحب نے یہ قول ۔۔۔
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ۔
اپنی عقل سے گھڑا ہے ۔ اس کی تائید میں کوئی دلیل انہوں نے قرآن یا حدیث سے نہیں دی ۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی ان سے یہ عقلی سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کہ :
جب ہم مشرک کو اس لیے نہیں پہچان سکتے کہ ہم اس کے دل کا حال نہیں جانتے اور یہ نہیں جانتے کہ وہ دل سے کس کس کو معبود مانتا ہے ۔۔۔ تو پھر ہم کس بنیاد پر اس کو مشرک قرار دے سکتے ہیں؟
درحقیقت ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ اسباب کے بغیر پکارنے والا ۔۔۔ پکارے جانے والی ہستی کو معبود بھی مانتا ہے یا نہیں ؟
اس معاملے میں ہم صرف ظاہری عمل کو دیکھ کر فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ اور اس کی دلیل میں بخاری کی یہ حدیث پڑھ لیں ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :
میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو کچھ لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعے ہو جاتا تھا ، لیکن اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ( اور باطن کے احوال پر مواخذہ ممکن نہیں رہا ) اس لیے اب ہم تمہارا مواخذہ صرف تمہارے ان عملوں پر کریں گے جو ہمارے سامنے آئیں گے ۔ پس جو ہمارے لیے بھلائی ظاہر کرے گا ، ہم اس کو امن دیں گے ( یا اس پر اعتبار و اعتماد کریں گے ) اور اس کو اپنے قریب کریں گے اور ہمیں اس کے اندرونی حالات سے کوئی سروکار نہیں ۔ ان کا حساب اللہ تعالیٰ ہی ان سے کرے گا ۔ اور جو ہمارے لیے برائی ظاہر کرے گا ، ہم نہ اسے امن دیں گے ( نہ اس پر اعتبار کریں گے ) اور نہ اس کی تصدیق کریں گے ، اگرچہ وہ یہ کہے کہ اس کا اندرونی معاملہ (ارادہ) اچھا تھا ۔
صحيح بخاري ، كتاب الشهادات ، باب : الشهداء العدول وقول الله تعالى {واشهدوا ذوى عدل منكم} و{ممن ترضون من الشهداء} ، حدیث : 2680