تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا

حدثنا أحمد بن منيع حدثنا إسحاق بن يوسف الأزرق حدثنا داود بن أبي هند عن الشعبي عن مسروق قال:‏‏‏‏ كنت متكئا عند عائشة فقالت:‏‏‏‏ " يا أبا عائشة ثلاث من تكلم بواحدة منهن فقد أعظم على الله الفرية:‏‏‏‏ من زعم أن محمدا رأى ربه فقد أعظم الفرية على الله والله يقول:‏‏‏‏ لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير سورة الأنعام آية 103 وما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب سورة الشورى آية 51 وكنت متكئا فجلست فقلت:‏‏‏‏ يا أم المؤمنين أنظريني ولا تعجليني أليس يقول الله تعالى:‏‏‏‏ ولقد رآه نزلة أخرى سورة النجم آية 13 ولقد رآه بالأفق المبين سورة التكوير آية 23 قالت:‏‏‏‏ أنا والله أول من سأل عن هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ إنما ذاك جبريل ما رأيته في الصورة التي خلق فيها غير هاتين المرتين رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء والأرض ومن زعم أن محمدا كتم شيئا مما أنزل الله عليه فقد أعظم الفرية على الله يقول الله:‏‏‏‏ يأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك سورة المائدة آية 67 ومن زعم أنه يعلم ما في غد فقد أعظم الفرية على الله والله يقول:‏‏‏‏ قل لا يعلم من في السموات والأرض الغيب إلا الله سورة النمل آية 65 " قال أبو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح ومسروق بن الأجدع يكنى أبا عائشة وهو مسروق بن عبد الرحمن وهكذا كان اسمه في الديوان.
مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: (۱) جس نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (معراج کی رات میں)اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائی۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» ”کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ لیتا ہے) اور اس کی ذات لطیف و خبیر ہے“، «وما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب» ”کسی انسان کو بھی یہ مقام و درجہ حاصل نہیں ہے کہ اللہ اس سے بغیر وحی کے یا بغیر پردے کے براہ راست اس سے بات چیت کرے“، (وہ کہتے ہیں)میں ٹیک لگائے ہوئے تھا اور اٹھ بیٹھا، میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے بولنے کا موقع دیجئیے اور میرے بارے میں حکم لگانے میں جلدی نہ کیجئے گا، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: «ولقد رآه نزلة أخرى» ”بیشک محمد نے اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا“ (النجم: ۱۳) «ولقد رآه بالأفق المبين» ”بیشک انہوں نے اسے آسمان کے روشن کنارے پر دیکھا“ (التکویر: ۲۳)تب عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: قسم اللہ کی! میں وہ پہلی ذات ہوں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ”وہ تو جبرائیل علیہ السلام تھے (ان آیتوں میں میرے دیکھنے سے مراد جبرائیل علیہ السلام کو دیکھنا تھا، اللہ کو نہیں)ان دو مواقع کے سوا اور کوئی موقع ایسا نہیں ہے جس میں جبرائیل علیہ السلام کو میں نے ان کی اپنی اصل صورت میں دیکھا ہو۔ جس پر ان کی تخلیق ہوئی ہے، میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ہے، ان کی بناوٹ کی بڑائی یعنی بھاری بھر کم جسامت نے آسمان و زمین کے درمیان جگہ کو گھیر رکھا تھا“، (۲): اور دوسرا وہ شخص کہ جو اللہ پر جھوٹا الزام لگانے کا بڑا مجرم ہے جس نے یہ خیال کیا کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چیزیں اتاری ہیں ان میں سے کچھ چیزیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپا لی ہیں۔ جب کہ اللہ کہتا ہے «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» ”جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو“ (النساء: ۶۷)، (۳): وہ شخص بھی اللہ پر جھوٹا الزام لگانے والا ہے جو یہ سمجھے کہ کل کیا ہونے والا ہے، محمد اسے جانتے ہیں، جب کہ اللہ خود کہتا ہے «قل لا يعلم من في السموات والأرض الغيب إلا الله» ”کہ آسمان و زمین میں غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔
سنن الترمذي،كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب وَمِنْ سُورَةِ الأَنْعَامِ، حدیث نمبر: 3068 (قال الشيخ الألباني: صحيح)